کسی گاوں میں تین بھائی رہتے تھے. ان کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے. ایک دن کوئی اللہ والا انکا مہمان بنا. اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک نہ ہوئے کہ ان کو بھوک نہیں۔ مہمان کا اکرام بھی ہو گیااور کھانے کی کمی کا پردہ بھی رے گیا آدھی رات کو مہمان اٹھا جب تینوں بھائی سو رہے تھے ایک آری سے وہ درخت کاٹا اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا.
صبح اس گھر میں کہرام مچ گیا سارا اہل محلہ اس مہمان کو کوس رہا تھا جس نے اس گھر کی واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا.چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ اس گاوں میں آیا تو دیکھا اس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا اب عالیشان گھر بن گیا تھا ان کے دن بدل گئے تھے تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے پر زندگی کیلئے
دوسرے اسباب کی تلاش شروع کر دی تھی اور اللہ نے ان کو برکت عطا فرما دی.لیکن اپنا کمفرٹ زون چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پاتا کبھی قدرت ہمیں اس کمفرٹ زون سے نکالتی ہے کبھی ہمارا امتحان ہی اس زون سے نکلنا بن جاتا ہےجب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہےتو ہماری بھی زندگی میں ایک زلزلہ آجاتا ہے ہم سمجھتے ہیں جیسے سب کچھ ختم ہو گیا. جبکہ یہ کسی نئی شروعات کیلئے قدرت کا پیغام ہوتا ہے انسان کی فطرت ہے وہ دستیاب صورتحال میں کمفرٹ زون بنا لیتا ہے وہ حسرت سے دُنیا کو دیکھتا ہے۔