میرے گناہوں کو بخش دے وہ جانتا ہے کہ گناہوں کو میرے علاوہ کوئی نہیں بخش سکتا ہے۔سنن ابو داوود جلد ٢ / ٨٣٠ -صحیحابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:“اللہ تعالی نے روزوں کے احکام کے درمیان میں اس آیت کو ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور رہنمائی فرمائی ہے کہ روزوں کی تعداد پوری ہوتے وقت بلکہ ہر روزے کی افطاری کے وقت دعا کریں” انتہیدعا کرتے ہوئے جامع دعا مانگے، ثابت شدہ ادعیہ کا اہتمام کرے، اور اپنی دعاؤں میں حد سے تجاوز مت کرے، اسی طرح دعا کے دیگر آداب بھی ملحوظ خاطر رکھے، ذیل میں کچھ ایسی دعائیں ہیں جنہیں رمضان اور غیر رمضان میں کثرت سے مانگنا چاہیے:–“رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ”ترجمہ: ہمارے پروردگار ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔“تفسیر ابن كثیر” (1/ 509):– “رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا”ترجمہ: ہمارے پروردگار! ہماری بیویوں اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا،
اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔– “رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ . رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ”ترجمہ: میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نمازوں کا پابند بنا اور میری دعا قبول فرما، ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنوں کو قیامت کے دن معاف فرما دے۔– “اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّالْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ” ترجمہ: یا اللہ! بیشک تو سراپا معاف کرنے والا ہے، تو معافی پسند بھی فرماتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے۔– “اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ منه عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا”ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے جلد یا دیر سے ملنے والی ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، جسے میں جانتا ہوں اسکا بھی اور جسے نہیں جانتا اس کا بھی طلب گار ہوں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںجلد یا دیر سے ملنے والی ہرشر سے، جسے میں جانتا ہوں اس سے بھی اور جسے نہیں جانتا اس سے بھی، یا اللہ! میں تجھ سے ہر اس چیز کا سوال کرتا ہوں جس کا تیرے بندے اور نبی نے تجھ سے کیا، اور ہر اس چیز سے تیری پناہ چاہتا ہوں
جس سے تیرے بندے اور نبی نے پناہ مانگی، یا اللہ! میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل کا سوال کرتا ہوں، اور میں جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور یہ بھی مانگتا ہوں کہ تیرا میرے بارے میں کیا ہوا ہر فیصلہ میرے حق میں بہتر بنا دے۔اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي ، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِياللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي ، وَعَنْ شِمَالِي ، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي”ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، یا اللہ! میں تجھ سے اپنے دین ، دنیا، اہل و عیال اور مال سے متعلق معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ، یا اللہ! میرے عیوب کی پردہ پوشی فرما، اور مجھے دہشت زدہ کرنے والی اشیاء سے امن عنایت فرما، یا اللہ! میری آگے ، پیچھے، دائیں ، بائیں، اور اوپر سے حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے نیچے سے اچک لیا جائے۔– اسی طرح کتاب و سنت سے ثابت دیگر جامع دعائیں،
اور کوئی بھی اچھی دعا اہتمام کیساتھ مانگے، انسان کو اللہ کیساتھ تعلق بنانے میں بھرپورکوشش کرنی چاہیے، تاہم کسی دعا کو رمضان کے کسی حصہ کیساتھ مختص مت کرے۔– اسی طرح افطاری کے بعد یہ کہنا بھی مسنون ہے: “ذَهَبَ الظَّمَأُ ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ” ترجمہ: پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور ان شاء اللہ اجر یقینی ہو گیا۔ اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (14103) اور (26879) کا مطالعہ کریں۔ – ہر رات کی آخری تہائی میں خوب محنت کیساتھ دعا مانگے۔اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (140434) – آخری عشرہ میں کثرت کیساتھ کہے: “اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ”ترجمہ: یا اللہ! بیشک تو سراپا معاف کرنے والا ہے، اور معافی کو پسند بھی فرماتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کے لئے دعائے مغفرت ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم و رحمتہ اللٰہ وبرکاتہ……ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر بت پرست تھے…… مشرک تھے تو حضرت ابراہیم نے انکے لئے مغفرت کی دعاء کیوں مانگی؟شرح و بسط کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں نوازش ہوگیبندہ خدا۔ قطرالجواب وباللہ التوفیقبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (41) mیہ دعا غالباً اپنے والد کے حالت کفر پر مرنے کی خبر موصول ہونے سے پہلے کی۔
تو مطلب یہ ہوگا کہ اسے اسلام کی ہدایت کرکے قیامت کے دن مغفرت کا مستحق بنا دے۔ اور اگر مرنے کی خبر ملنے کےبعد دعا کی ہے تو شاید اس وقت تک خدا تعالیٰ نے آپ کو مطلع نہیں کیا ہوگا کہ کافر کی مغفرت نہیں ہوگی۔ عقلاً کافر کی مغفرت محال نہیں، سمعاً ممتنع ہے۔ سو اس کا علم سمع پر موقوف ہوگا اور قبل از سمع امکان عقلی معتبر رہے گا۔ بعض شیعہ نے یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو جو کافر کہا گیا ہے وہ ان کے حقیقی باپ نہ تھے بلکہ چچا وغیرہ کوئی دوسرے خاندان کے بڑے تھے۔ (تفسیر عثمانی)۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے لئے اور مومنین کے حق میں دعاء مغفرت کرنا تو ایک صاف اور سیدھی سی بات ہے البتہ شبہ اس میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے کافر والد کے حق میں دعائے مغفرت کیسے کردی؟ سو اگریہ دعاء آپ (علیہ السلام) نے ان کی زندگی ہی میں کی تھی جب تو آپ (علیہ السلام) کی مراد یہی ہوگی کہ انہیں توفیق ہدایت دے کر ان کی مغفرت کا سامان کردیاجائے۔ اور اگر بعد وفات یہ دعا کی تھی
تو یہ دعاء ان کی ایمان کے ساتھ (علم الہی میں) مشروط ہوگی، یعنی اے پروردگار اگر تیرے علم میں ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہے تو ان کی مغفرت کردے۔ (آیت) ”اغفرلی“۔ غفر کے معنی ہیں رحمت الہی کا ڈھانپ لینا، اور اس کی حاجت جس طرح عاصی کو رہتی ہے، معصوم کو بھی رہتی ہے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے حق میں طلب مغفرت کرنے سے ان کا غیر معصوم ہونا ہرگز لازم نہیں آتا۔ (تفسیر ماجدی) ربنا اغفر لی ولوالدیاے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والدین مسلمان تھے۔ آذر آپ کا چچا تھا اور تارخ آپ کے باپ کا نام تھا۔ تفصیل سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ چونکہ ‘اب’ کا لفظ چچا کیلئے بھی بولا جاتا ہے‘ اسلئے اگر والدیَّ کی جگہ اَبَوَیَّ کا لفظ استعمال کیا جاتا تو خیال ہوسکتا کہ شاید حضرت نے آذر کیلئے بھی دعائے مغفرت کی تھی (باوجودیکہ آذر مشرک تھا اور مشرک ناقابل مغفرت ہے) اس خیال کو دفع کرنے کیلئے وَالِدیَّ فرمایا، یعنی حقیقی ماں اور حقیقی باپ اور بالفرض اگر آذر کو (حقیقی) باپ مان بھی لیا جائے
تو اس کیلئے دعائے مغفرت کی وجہ خود ہی اللہ نے بیان فرمادی ہے کہحضرت ابراہیم علیہ السلام نے باپ کیلئے دعائے مغفرت صرف اس وعدہ کی وجہ سے کی تھی کہ اس سے وعدہ کرلیا تھا ‘ لیکن جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے اور بیزاری کا اظہار کردیا۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ الاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِلّٰہِ تَبَرَّأَ مِنْہُوللمؤمنین یوم یقوم الحساب اور (تمام) ایمان والوں کو جس روز حساب برپا ہوگا۔ برپا ہونے سے مراد ہے: موجود ہونا یا ظاہر ہونا۔ یہ معنی قیام علی الرجل (پاؤں پر کھڑا ہونا) سے مستعار لیا گیا ہے۔ محاورے میں بولا جاتا ہے: قَامَتِ الحربُ عَلٰی ساقٍ لڑائی اپنی پنڈلی پر کھڑی ہوگئی (یعنی برپا ہوگئی) یا الحسابُ سے پہلے لفظ اَہْلُمحذوف ہے، یعنی جس روز اہل حساب کھڑے ہوں گے۔ جیسے آیت واسْءَلِ الْقَرْیَۃَ اور بستی سے پوچھ لو، یعنی بستی والوں سے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ کھڑے ہونے کی نسبت حساب کی طرف مجازی ہے (پہلی صورت میں مجاز فی الحذف ہوگا اور اس صورت میں مجاز فی الاسناد) یعنی لوگ حساب کیلئے کھڑے ہوں گے۔ (مظہری) اس میں والدین کے لئے بھی مغفرت کی دعاء فرمائی حالانکہ والد یعنی آذر کا کافر ہونا قرآن میں مذکور ہے ہوسکتا ہے کہ یہ دعاء اس وقت کی ہو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کافروں کی سفارش اور دعائے مغفرت سے منع نہیں کیا گیا تھا جیسے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے (آیت)وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ۔ (معارف القرآن)واللہ اعلم بالصواب۔