### **نیلسن مینڈیلہ کی عاجزی، انسانیت اور معافی کا عظیم واقعہ**
نیلسن مینڈیلہ، جنوبی افریقہ کے سابق صدر، دنیا کے ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے انسانیت، مساوات، اور معافی کی بے مثال مثالیں قائم کیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ان کی عاجزی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ حقیقی قیادت صرف اقتدار سے نہیں بلکہ انسانیت اور دردمندی سے پہچانی جاتی ہے۔
—
#### **20 سال جیل کی قید کے بعد قیادت کی بلندی پر** نیلسن مینڈیلہ نے اپنی زندگی کے 27 سال جیل میں گزارے، جہاں انہوں نے ظلم، ناانصافی، اور نسل پرستی کا سامنا کیا۔ لیکن ان تمام سختیوں کے باوجود وہ نہ تو اپنی انسانیت کھوئے اور نہ ہی اپنی اصول پسندی۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے، اور ان کی قیادت نے ملک کو امن اور اتحاد کی راہ پر گامزن کیا۔
—
#### **ایک سادہ دوپہر کا واقعہ** یہ واقعہ ان کے صدارت کے دور کا ہے جب وہ اپنی سیکورٹی ٹیم کے ساتھ شہر کے دورے پر تھے۔ دورہ کرتے ہوئے وہ ایک ہوٹل میں داخل ہوئے اور کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ اسی دوران انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنا کھانا آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ مینڈیلہ نے اپنے سیکورٹی افسر کو ہدایت دی کہ اس شخص کو ان کے ساتھ کھانے کی میز پر بلا لایا جائے۔
—
#### **ایک غیر معمولی دعوت** اس شخص کو مینڈیلہ کے ساتھ بیٹھنے کی دعوت ملی، جو اس کے لیے حیران کن تھی۔ وہ مینڈیلہ کی میز پر آیا، لیکن اس کی حالت غیر معمولی تھی۔ کھانے کے دوران اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے، اور اس کے چہرے پر خوف اور بے چینی کے آثار نمایاں تھے۔ کھانے کے دوران اس نے زیادہ بات نہیں کی اور خاموشی سے کھانے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔
—
#### **سیکورٹی افسر کا سوال** اس شخص کے جانے کے بعد، مینڈیلہ کے سیکورٹی افسر نے حیرت کے ساتھ پوچھا: **”یہ شخص آخر کون تھا؟ اور وہ اس قدر خوفزدہ کیوں تھا؟”**
—
#### **مینڈیلہ کا جواب: معافی اور انسانیت کا سبق** نیلسن مینڈیلہ نے جواب دیا: **”یہ شخص وہی ہے جو جیل میں میرے قید کے دنوں میں جیلر تھا۔ وہ مجھے اذیت دیتا تھا، میرے ساتھ بے رحمی سے پیش آتا تھا، اور جب میں پانی مانگتا تھا تو وہ میرے اوپر پیشاب کر دیتا تھا۔”**
سیکورٹی افسر نے حیران ہو کر پوچھا: **”تو آپ نے اسے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت کیوں دی؟”**
نیلسن مینڈیلہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: **”کیونکہ میں چاہتا تھا کہ وہ دیکھے کہ میری روح اس کی نفرت سے نہیں بھری۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے، اور اس کا خوف یہ ہے کہ وہ سمجھ نہیں پا رہا کہ میں نے اس کے ساتھ یہ رویہ کیوں اختیار کیا۔”**
—
#### **واقعے کا پیغام: معافی کی طاقت** یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ معافی اور انسانیت دنیا کو بدل سکتی ہیں۔ نیلسن مینڈیلہ نے اپنی زندگی میں کبھی انتقام کا راستہ نہیں اپنایا، حالانکہ ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کی انتہا کی گئی تھی۔ ان کی قیادت کی سب سے بڑی طاقت ان کی معافی اور محبت تھی، جو انہوں نے اپنے دشمنوں کو بھی دکھائی۔
—
### **نیلسن مینڈیلہ کی قیادت کے اصول** 1. **عاجزی:** مینڈیلہ کی عاجزی ان کی قیادت کی بنیاد تھی۔ وہ اپنے منصب کو دوسروں پر برتری کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
2. **معافی:** معافی کے ذریعے انہوں نے اپنے دشمنوں کے دل جیتے اور ملک میں امن قائم کیا۔
3. **برابری:** وہ ہر انسان کو برابر سمجھتے تھے، چاہے وہ ان کا دوست ہو یا دشمن۔
4. **انسانیت:** مینڈیلہ نے اپنی قیادت کے ذریعے دنیا کو یہ سکھایا کہ حقیقی طاقت انسانیت میں ہے۔
—
### **نتیجہ: ایک عظیم سبق** یہ واقعہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ عظیم لوگ اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیلسن مینڈیلہ نے نہ صرف اپنی قوم کو ایک کیا بلکہ دنیا کو معافی اور محبت کا سبق دیا۔ ان کی یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ طاقت صرف اقتدار میں نہیں بلکہ عاجزی، معافی، اور انسانیت میں پوشیدہ ہے۔
—
### **اختتامیہ** نیلسن مینڈیلہ کی زندگی اور قیادت دنیا بھر کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کی معافی اور انسانیت نے انہیں تاریخ کے عظیم ترین رہنماؤں میں شامل کر دیا۔ یہ واقعہ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے اور دوسروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا برتاؤ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معافی کے ذریعے ہم نہ صرف دوسروں کو سکون دیتے ہیں بلکہ خود کو بھی آزاد کر لیتے ہیں۔