;حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک اعرابی آپ کے پاس آیا، آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس اعرابی نے سوال کیا کہ کیا آپ کی نبوت پر کوئی گواہ بھی ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں یہ درخت جو مد ان کے کنارے پر ہے مری نبوت کی گواہی دے گا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس درخت کو بلایا اور وہ فوراً ہی زمن چر تا ہوااپنی جگہ سے چل کر بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا،
اور اس نے با آواز بلند تین مرتبہ آپ کی نبوت کی گواہی دی۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے اس کو اشارہ فرمایا تو وہ درخت زمین میں چلتا ہوا اپنی جگہ پر چلا گیا۔ امام بغوی نے اس حدیث میں یہ روایت بھی تحریر فرمائی ہے کہ اس درخت نے بارگاہِ اقدس میں آ کر اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ الله کہا، اعرابی یہ معجزہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگیااور جوشِ عقیدت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علہا وسلم) مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کو سجدہ کروں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کاحکم دیتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ یہ فرما کر آپ نے اس کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پھر اس نے عرض کا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علہ وسلم) اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے دست مبارک کو بوسہ دوں۔
آپ ﷺ نے اس کو اس کی اجازت دے دی۔چنانچہ اس نے آپ کے مقدس ہاتھ کو والہانہ عقیدت کے ساتھ چوم لیا۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ سفر میں ایک منزل پر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم استنجاء فرمانے کے لئے میدان میں تشریف لے گئے مگر کہی کوئی آڑ کی جگہ نظر نہیں آئی ہاں البتہ اس میدان میں دو درخت نظر آئے جو ایک دوسرے سے کافی دوری پر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک درخت کی شاخ پکڑ کر چلنے کا حکم دیا تو وہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جس طرح مہار والا اونٹ مہار پکڑنے والے کے ساتھ چلنے لگتا ہے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علہ وسلم نے دوسرے درخت کی ٹہنی تھام کر اس کو بھی چلنے کا اشارہ فرمایا تو وہ بھی چل پڑا اور دونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اور آپ نے اس کی آڑ میں اپنی حاجت رفع فرمائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ دونوں درخت زمین چراتے ہوئے چل پڑے اور اپنی اپنی جگہ پر پہنچ کر جا کھڑے ہوئے۔امام ترمذیؒ، لکھتے ہیں کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا” مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔
میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔ ناظرین کرام ۔۔۔۔ رسول خدا ﷺ اللہ کے محبوب ترین نبی تھے ،آپ ﷺ کی شان نبوت یہ تھی کہ آپ سرکارﷺ جہاں سے گزر تے انسان و غیر انسانی قوتیں بھی آپﷺ پر سلام ا ور درود بھیجا کرتی تھیں ۔یہ اللہ کریم کی اپنے محبوب نبی سے محبت کا اظہار ہے کہ اللہ خود اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے اور اپنی مخلوقات کو بھی اسکی ہدایت فرمائی لیکن انسان ایسا ناقدرااور کج فہم ہے کہ وہ اللہ کی اس ہدایت پر عمل کی بجائے درود و سلام پر بحث شروع کردیتاہے ۔ درود وسلام کی حکمت اور فضیلت میں ہر کسی کی بھلائی پوشیدہ ہے ،یہ ہر انسان کی زندگی کا بہترین عمل ہے جو اسے عشق نبی ﷺ سے مالا مال کرسکتا ہے۔احادیث مبارکہ میں اللہ کے نبیﷺ کے یہ معجزات بھی موجود ہیںکہ جب درختوں اور پتھروں نے بھی آپﷺ کو سلام کیا اور درود پڑھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں” ہم مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر
اور درخت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا تو وہ کہتا” اَلسَّلَام عَلَیک یا رَسولَ اللہِ“ یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔“ پتھروں اور پہاڑوں کی جانب سے رسالت مآب ﷺ کی خدمت میں سلام کو امام بیہقیؒ نے بھی روایت کیا ہے کہ ”حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں” میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا”میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا” اَلسَّلَام عَلَیکَ یا رَسولَ اللہِ“یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔“ اردن کے شمالی صحرا میں ایک درخت ایسا بھی ہےجو گذشتہ 1400سال سے آج بھی ہرا بھرا ہے اور اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ اس درخت کے نیچے نبی کریم ﷺنے آرام فرمایا تھا۔اس درخت کے اردگرد سینکڑوں کلومیٹر تک کوئی درخت یا پودا نہیں ہے اور یہ درخت تنہا لک و دک صحر امیں کھڑا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ نے اس درخت کو آج بھی قائم رکھا ہے۔ اس درخت کو جو اعزاز حاصل ہے وہ کسی اور درخت کو نہیں جس کی وجہ سے اسے ’صحابی درخت‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اللہ کی قدرت ہے کہ یہ درخت صدیاں گزر جانے کے بعد بھی صحیح سلامت ہے۔روایت ہے کہ
اس درخت کے نیچے کوئی نہیں جاسکتا تھا اور جو بھی اس کے نیچے جانے کی کوشش کرتاوہ خوفزدہ ہوکر بھاگ جاتا۔ عیسائی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس درخت کے نیچے صرف نبی آخری الزماں ﷺٹھہریں گے۔اس درخت کے قریب ہی ایک گرجا گھر تھا ، جہاں ایک خانقاہ میں بحیرانامی انجیل کا بہت بڑا عالم مقیم تھا۔یہ اس علاقے میں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا۔بحیرا ایک گوشہ نشین شخص تھا ،اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا اور شہر کے لوگوں سے اس کے روابط بالکل نہیں تھے۔اس کی تحقیق تھی کہ ادھر سے نبی آخر الزمانﷺ کا گزر ہوگا، چنانچہ وہ یہاں آنے جانے والے ہر قافلے کو کھڑکی سے بغور دیکھا کرتا تھا۔ مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کی اسے تلاش تھی لیکن ایک دن ایسا ہوا کہ ایک عرب سے آیا ہوا قافلہ وہاں رکا۔بحیرا نے اپنی خانقاہ کی کھڑکی سے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا ۔ اس نے دیکھا کہ سامنے درخت کے نیچے ایک بارہ سالہ لڑکا بیٹھا ہے ۔ درخت کی شاخیں اسے دھوپ سے بچانے کے لئے اس پر جھکی جارہی ہیں اورجب وہ لڑکا اٹھ کر دھوپ میں گیا تو بادل کا ایک ٹکڑا اس پر سایہ فگن ہوگیا۔ سالہا سال کی تحقیق اور اس کے علم مطابق اسے اسی دن اور اسی ہستی کا انتظار تھا۔
وہ بڑی تیزی سے اپنی خانقاہ سے باہر نکلا اور قافلے میں گھس گیا۔ قافلے کے تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ بحیرا،ان لوگوں سے مخاطب ہوا ۔ آپ لوگ خانقاہ تشریف لے چلیں ۔میری طرف سے آپ تمام لوگوں کی دعوت ہے اور کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قافلے کے تمام لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ،گویا نگاہیں ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ ۔ ’’ہم لوگ کئی باریہاں آئے ، ٹھہرے اور چلے گئے، لیکن بحیرا نے کبھی نہیں پوچھا ۔آج وہ کیوں اتنا مہربان ہورہا ہے۔ بہرحال کیا کرتے ، تمام لوگوں نے اس کی دعوت قبول کی اوربحیرا کی رہنمائی میں اس کی خانقاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ بحیرا نے سب کا پر تپاک خیر مقدم کیا ۔ بولا ’’ بھائیو! میں چاہتا ہوںکہ آج تم سب میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور تم میں سے کوئی بھی رہ نہ جائے‘‘ ۔ اہل قافلہ بولے، ہم سب توآگئے ہیں ۔ ہاں ایک چھوٹا لڑکا بھی ہمارے ساتھ تھاجسے ہم وہیں درخت کے نیچے چھوڑ آئے ہیں۔بحیرا نے کہا ،نہیں نہیں لڑکا ہے تو کیا ہوا، اس کو بھی بلاؤ ، وہ بھی یہیں ہمارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ اس سے سب کی حیرانی اور بڑھ گئی،
کہ ایک تو یہ خلاف معمول دعوت اور اس پر یہ بھی اصرار کہ کوئی رہ نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا ’’بحیرا کیا بات ہے کہ آج آپ نے ہماری دعوت کی ہے ۔ اس سے پہلے تو کبھی نہیں کرتے تھے۔ بحیرا نے کہا ’’آپ لوگ مہمان ہیں، ہمارے پڑوس میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ ہم پر آپ کا حق ہے ۔ ہمیں اس کا خیال کرنا ہی چاہیے ۔میں نے چاہا کہ آپ لوگوں کی کچھ خاطر تواضع ہوجائے اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ لوگوں نے کہا بخدا ضرور کوئی بات ہے۔ چنانچہ بحیرا نے ایک شخص کو حضرت ابو طالب کے ڈیرے پربھیجا۔ جو وہاں جاکر محمد ﷺ کو ساتھ لے کر آیا۔ بحیرا اور تمام مہمان بیٹھے آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ بحیرا کی نظریں محمد ﷺ پر پڑیں تو جم کر رہ گئیں اور وہ ٹکٹکی لگائے آپ ﷺ کو دیکھتا ہی رہا۔ سب نے کھانا کھایا اور ادھر اُدھر پھیل گئے۔کوئی چہل قدمی کررہا تھا ، تو کوئی گھوم گھوم کر بحیرا کا گرجا گھر دیکھ رہا تھا۔ اس وقت بحیرا آپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا بیٹا، تمہیں لات و عزیٰ کی قسم جو کچھ پوچھوں بتلا دینا۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’لات و عزیٰ کی قسم نہ دیجئے۔ بحیرا نے کہا ’’اچھا خدا کی قسم ! جو کچھ پوچھوں سب بتلادینا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ پوچھئے کیا پوچھتے ہیں۔ اب بحیراا ٓپﷺ سے آپ ہی کے بارے میں مختلف سوال کرنے لگا۔ کچھ مزاج اور طبیعت کا حال پوچھا۔ کچھ عادات و اخلاق کے بارے میں دریافت کیا ۔ اور آپ ﷺ اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے ۔ اتنے میں آپ کے چچا ابو طالب آپ ﷺکو لینے آگئے ۔ بحیرا نے پوچھا، یہ لڑکا تمہارا کون ہوتا ہے۔ ابوطالب نے کہا ، یہ میرا بیٹا ہے ۔ بحیرا بولا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میرے علم کے مطابق یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا ۔ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو ، یہ ہوہی نہیں سکتا۔ حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کے بارے میں بحیرا کی معلومات دیکھیں تو دنگ رہ گئے ،بولے ہاں یہ میرا بھتیجا ہے۔ بحیرا نے کہا اور اس کا باپ۔ ابوطالب بولے ’’ابھی یہ ماں کے پیٹ ہی میں تھاکہ باپ کا انتقال ہوگیا‘‘۔ بحیرا بولا، تم نے سچ کہا ۔تمہارا یہ بھتیجا ایک عظیم انسان ہوگا۔اور آ پ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر باآواز بلند کہنے لگا۔ یہ سرکار دوعالم ہیں۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔
اﷲ نے انہیں رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اہل قافلہ بحیراکی یہ باتیں سن کر حیرت وتعجب میں ڈوب گئے۔ قافلے میں سے ایک قریشی رئیس نے پوچھا ۔ اے محترم بزرگ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ بحیرا نے جواب دیا ’’جب آپ لوگ آرہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ تمام درخت اور پتھر ان کے سامنے سجدہ کررہے تھے اور ایک بدلی ان کے سر پر سایہ کئے ہوئی تھی اور جب قافلہ اس درخت کے نیچے براجمان ہوا تو محمد ﷺ اس جگہ تھے جہاں اس درخت کا سایہ ختم ہوجاتا ہے تو اس درخت نے فوراََ جھک کر آپﷺ کے سر اقدس پر سایہ کردیا۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے اکرام کو حاصل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان سکتا ہوں جو انکے دونوں کندھوں کے درمیان ہوگی۔ ضیافت سے فارغ ہوکر، بحیرا نے ابوطالب سے درخوست کی کہ تم اپنے بھتیجے کو واپس لے جاؤ۔خدا کی قسم ! جس حد تک میں نے انھیں پہچان لیا ہے اگر رومی(یہودی) انھیں دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے انھیں پہچان کران کی جان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔یوں ابو طالب حضور ﷺ کو لے کر قافلہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ واپس آگئے۔ جدید سائنس کے تجربات اور تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ شجر اور حجر بھی شعور رکھتے ہیں۔
موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت اردن میں موجود ہے ۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی اس تجارتی شاہراہ کے آثار بھی تلاش کرلیئے ہیں اور اس درخت کی ڈاکو منٹری بھی بنائی جو ناظرین انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ سینکڑوں میل تک لق و دق تپتے صحرا میں اُگا ہوا یہ تنہا درخت موجود ہے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس درخت کی زیارت کا موقع عطافرمائے