میرا نام مدیحہ ہے میری عمر اس وقت 27 سال ہے ۔ جو میرے ساتھ ہوا میں اپنی داستان کس کو سناؤں ۔ آئیں میں آپ کو اپنی داستان سناتی ہوں کہ کیسے اپنے ہی ہاتھوں میں نے اپنی زندگی برباد کر لی ۔ جب میری شادی ہوئی تھی ۔ تب میری عمر 22 سال تھی میری ماں نے میری شادی ایک نابینا – لڑکے سے کر دی جس کی بہت سی جائیداد تھی میری ماں یہ سوچتی تھی
کہ ساری جائیداد میری بیٹی کی ہو جاۓ گی لیکن میں اپنے شوہر سے بالکل بھی خوش نہیں تھی جو حق بیوی کو چاہیے ہوتا ہے وہ مجھے اس سے نہیں مل رہاتھا ۔ میری شادی کو پانچ سال ہوگئے لیکن میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہیں تھی ۔ اگر رشتہ داروں میں کہیں فنکشن ہوتا تو میں اکیلی ہی جاتی شوہر کو ساتھ نہیں لے کر جاتی تھی ۔ اگر میں اس کو کہیں لے جاؤ تو سب رشتہ دار مجھے باتیں کرتے تھے ۔
پھر میری زندگی میں اک ایسا موڑ آیا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ میری خالہ کا بیٹا جو کہ گاؤں میں رہتا تھا وہ یہاں شہر ہمارے پاس کام کے سلسلے میں آ گیا اور ہمارے گھر پر رہنے لگا کیوں کہ اس کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔
ایک دن وہ اپنے کام سے آیا اور مجھے کھانے کا کہہ کر اپنے کمرے میں سیدھا چلا گیا میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان لگ رہا تھا ۔ میں کھانالے کر اس کے کمرے میں چلی گئی ۔ اس نے کھانا کھایا اور مجھے کہنے لگا کہ مدیحہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ے میں نے کہا کہ اسد بولو کیا بات کرنی ہے مجھ سے مجھے کہنے لگا کہ میں بہت پریشان ہوں وہ مجھے گندی گندی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے پورے جسم کا جائزہ لے رہاہو ۔ میں بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ میری طرف دیکھے میرے ہر وہ خواہش پوری کرے جو میراشوہر نہیں پوری کر رہا تھا اس نے مجھے کہا کہ میری بات مانو گی پلیز انکارمت کرنا اچانک سے مجھے باہر سے کسی کے آنے کی آواز سنائی دی ۔
میں جلدی سے کمرے سے باہر آنے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے کہنے لگا کہ مدیحہ آج رات 1 بجے میرے پاس لازمی آنا مجھے بہت اشد دنوں سے بہت بے چین پھر رہا ہوں میں اس کی بات کو سمجھ گئی تھی کیونکہ میں تو شادی شدہ تھی اس کی بات اچھے سے سمجھتی تھی میں نے بھی ہنس کر اسے جواب دیا کہ میں لازمی آؤں گی مجھے اور کیا چاہیے تھا جو میں چاہتی تھی وہمجھے مل رہا تھا بس پھر جیسے ہی سب گھر والے سو گئے میں اس کے کمرے میں چلی گئی وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا ہم دونوں نے ساری رات ایک دوسرے سے پیار کیا ہم دونوں نے اپنے اپنے کپڑے اتاکر سائیڈ پر رکھ دیے تھے اور ہم دونوں اتنے پیاسے تھے کہ ساری رات نہیں سوۓ اور میں صبح ہوتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی اب یہ ہماراہر رات کا معمول بن گیا تھا میں روز رات کو آتی اور اپنی خواہش اپنے طریقے سے پوری کروا کر چلی جاتی ایک رات ہم ایک دوسرے سے پیار کر رہے تھےتو میری نند نے ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لیا گھر میں بہت ہنگامہ برپا کیا سب لوگوں کو ہم دونوں کے بارے میں ساری اصلیت پتا چل گی
مجھے گھر سے نکال دیا گیا میں اپنی امی کے گھر آگئی اور وہ بھی اپنے گھر چلا گیا ۔ میرے دونوں بیٹے مجھ سے چھین لیے کے اور مجھے طلاق دے دی گئی ۔ میں بھی تو یہی چاہتی ۔ تھی کہ میری اپنے شوہر سے جان چھوٹ جاۓ میں نے پھر اسد کو فون کیا کہ تم اپنے گھر والوں کو بھیجو اور مجھے یہاں سے آکر لے جاؤ میں تمہاری دلہن بننا چاہتی ہوں لیکن میرے گھر والے نہیں مانے ۔ کیونکہ میرے گھر والوں کو پتہچل گیا تھا کہ اسد کی وجہ سے ہی مجھے طلاق ہوئی ہے اور ہمارے آپس میں غلط تعلقات تھے۔اس وجہ سے میرے گھر والے اسد سے میری شادی کرانے کو نہیں مانے اور پھر ہم دونوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا پلان بنایا بہر حال ہم دونوں نے بھاگ کر شادی کر لی اس نے ایک ماہ تو میرا بہت خیال رکھا جب اس کا دل مجھ سے بھر گیا تم مجھ سے دور رہنے لگا
آج میری شادی کو تین سال ہو چکے ہیں میرے اسد میں سے دو بچے ہیں اور اسد مجھے اور بچوں کو چھوڑ کر باہر کے کسی ملک چلا گیا ہے اور مجھے خرچہ بھی نہیں بھیجتا اور میں یہاںپر ذلیل ہورہی ہیں ۔ نہ میرے گھر والے مجھ سے ملتے ہیں اور نہ ہی کوئی رشتے دار ہر روز پل پل روتی ہوں ہر روز پل پل مرتی ہوں کہ یہ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کر لیا ۔ پچ کہتے ہیں کہ برائی کا انجام براہی ہوتا ہے ۔۔۔ ؟؟