میری بہن کا رشتہ ایک معزز اور خوشحال خاندان میں طے پایا تھا۔ یہ ہمارے لیے فخر اور خوشی کا موقع تھا۔ سب کچھ بہت اچھے انداز میں طے ہوا، اور آج وہ دن آ پہنچا جب بہن کی بارات گھر آنے والی تھی۔ گھر میں خوشیوں کا ماحول تھا، مہمانوں کی آمد جاری تھی، اور ہر طرف رونق اور ہنسی خوشی کے مناظر تھے۔ لیکن اس دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہمیں حیران اور پریشان کر دیا۔
—
### ساس کی شرط
بارات کے دن، جب تمام رسومات ادا ہو چکیں اور رخصتی کا وقت قریب آیا، اچانک لڑکے کی ماں یعنی میری بہن کی ساس نے ایک عجیب شرط رکھ دی۔ انہوں نے کہا: **”یہ ہمارے خاندان کی روایت ہے کہ رخصتی سے پہلے بہو کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ وہاں چند ضروری ٹیسٹ ہوں گے، اور اس کے بعد ہی ہم اسے اپنے گھر لے کر جائیں گے۔”**
یہ بات سنتے ہی ہم سب کے چہروں کا رنگ اڑ گیا۔ یہ کیسی روایت تھی؟ رخصتی کے دن ہسپتال کیوں؟ ہم سب نے ساس سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بضد تھیں کہ یہ ان کا “خاندانی اصول” ہے اور اسے ہر صورت پورا کیا جائے گا۔
—
### مجبوری کا عالم
اس وقت ہماری حالت ایسی تھی کہ نہ تو ہم انکار کر سکتے تھے اور نہ ہی یہ مطالبہ قبول کرنا آسان تھا۔ بارات ہمارے دروازے پر کھڑی تھی، اور مہمان سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ یہ بات پورے خاندان کے لیے باعثِ شرمندگی بھی بن سکتی تھی۔ بہن خود بھی حیران اور پریشان تھی، لیکن اس نے ہمت سے کہا: **”اگر یہ شرط ہے تو ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”**
بہن کے حوصلے کو دیکھ کر ہم نے بھی دل پر پتھر رکھ لیا اور مجبوراً اس شرط کو مان لیا۔
—
### ہسپتال کا سفر
کچھ دیر بعد، بہن کو ہسپتال لے جایا گیا۔ یہ ایک نجی ہسپتال تھا جو شاید ان کے خاندان کی ملکیت یا مخصوص تھا۔ ہمیں مزید حیرت اس وقت ہوئی جب بہن کو **آپریشن تھیٹر** میں لے جانے کی بات کی گئی۔ یہ بات ہماری سمجھ سے بالکل باہر تھی کہ رخصتی سے پہلے آپریشن تھیٹر میں کیوں لے جایا جا رہا تھا۔
ہسپتال میں دلہن کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا، اور اس کے بعد اس خاندان کے سارے مرد ایک ایک کر کے ڈاکٹر کا لباس پہن کر اندر چلے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ہم سب خوفزدہ اور پریشان تھے کہ اندر کیا ہونے والا ہے؟
—
### ناقابلِ یقین منظر
ہم باہر ہسپتال کے انتظارگاہ میں بیٹھے دعا کر رہے تھے اور کسی معجزے کے منتظر تھے۔ کچھ دیر بعد، جب آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا، تو جو منظر ہم نے دیکھا، وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین تھا۔
تمام مرد، جو ڈاکٹر کے لباس میں اندر گئے تھے، وہ ایک ایک کر کے باہر آ رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں **میڈیکل رپورٹس** تھیں۔ رپورٹس دکھا کر وہ فخر سے اعلان کر رہے تھے کہ: **”یہ ہماری بہو ہے، اور یہ ہر لحاظ سے مکمل اور بہترین ہے۔”**
—
### حقیقت کا انکشاف
یہ سارا عمل ایک “طبی معائنہ” تھا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ دلہن بالکل صحت مند ہے اور کسی جسمانی عیب یا بیماری کا شکار نہیں ہے۔ یہ ان کے خاندان کی ایک پرانی روایت تھی، جسے وہ نسل در نسل نبھاتے چلے آ رہے تھے۔
ساس نے ہمیں سمجھایا کہ: **”ہمارے خاندان میں یہ شرط اس لیے رکھی جاتی ہے تاکہ بہو کی صحت کا مکمل اطمینان ہو اور مستقبل میں کسی بھی مسئلے سے بچا جا سکے۔”**
—
### خاندان کی عزت اور شرمندگی
یہ بات سن کر ہماری پریشانی کچھ حد تک کم ہوئی، لیکن اندر ایک عجیب سا غصہ اور بے بسی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ سارا عمل ہماری بہن کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ ایک طرف شادی کی خوشیاں تھیں، اور دوسری طرف عزت و وقار کو کچلنے والا یہ عمل۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا یہ روایت واقعی ضروری تھی؟ کیا بہو کی عزت اور وقار سے بڑھ کر صحت کی جانچ پڑتال ضروری تھی؟
—
### بہن کا ردِعمل
جب بہن باہر آئی، تو اس کے چہرے پر خوشی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی سنجیدگی بھی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا: **”میں نے یہ سب کچھ آپ سب کی عزت کے لیے برداشت کیا ہے۔ امید ہے کہ اس خاندان میں اب مجھے عزت ملے گی۔”**
—
### نتیجہ اور سبق
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بعض روایات، جو بظاہر اہم لگتی ہیں، درحقیقت انسان کی عزتِ نفس کو مجروح کر سکتی ہیں۔ صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، لیکن یہ کام ایسے طریقے سے بھی ہو سکتا ہے جو کسی کی عزت کو ٹھیس نہ پہنچائے۔
—
### معاشرتی پہلو
اس واقعے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو آج بھی بعض اوقات غیر ضروری روایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی رسومات نہ صرف دلہن کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہیں بلکہ اس کے خاندان کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
—
### اختتامیہ
میری بہن کی ہمت اور برداشت نے اس مشکل لمحے کو عبور کر لیا، لیکن یہ واقعہ ایک سوال چھوڑ گیا: **”کیا ایسی روایات ضروری ہیں جو انسانی وقار اور جذبات کو مجروح کرتی ہیں؟”**
یہ کہانی ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی روایات پر نظرثانی کریں اور ان کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بدلیں تاکہ کسی کی عزت نفس متاثر نہ ہو اور معاشرے میں بہتر اقدار کو فروغ مل سکے۔