### سلطان صلاح الدین ایوبی اور علم دین موچی کی کہانی
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ایک موچی علم دین اپنی غیر معمولی کاریگری کی وجہ سے پورے شہر میں مشہور تھا۔ اس کا بنایا ہوا ہر جوتا نہ صرف مضبوط ہوتا بلکہ ایسا خوبصورت اور منفرد ہوتا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے۔ علم دین اپنے کام میں اتنا ماہر تھا کہ امیر و غریب سبھی اس کے جوتے خریدنے کی خواہش رکھتے تھے۔ لیکن ایک دن علم دین شدید پریشانی میں مبتلا ہو کر سلطان کے دربار میں حاضر ہوا۔
—
### علم دین کا دربار میں حاضر ہونا
علم دین کے ہاتھ میں ایک بڑا تھیلا تھا، اور اس کا چہرہ خوف اور پریشانی سے لال ہو رہا تھا۔ دربار کے تمام لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی، جو ہمیشہ انصاف اور رحم دلی کے لیے مشہور تھے، علم دین کو دیکھ کر سوچنے لگے کہ یہ موچی ان کے لیے کوئی نایاب تحفہ لے کر آیا ہوگا۔ سلطان نے نرمی سے پوچھا:
“علم دین، کیا معاملہ ہے؟ اور اس تھیلے میں کیا ہے؟”
علم دین خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر خوف کے آثار واضح تھے، اور وہ تھیلے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔ سلطان نے دوبارہ اپنے مخصوص لہجے میں کہا:
“جو کچھ بھی ہے، ہم سننے کو تیار ہیں۔ تھیلا کھولو اور بتاؤ کہ مسئلہ کیا ہے۔”
—
### تھیلا کھولنے کا لمحہ
علم دین نے ڈرتے ہوئے تھیلا کھولا۔ تھیلے کے کھلتے ہی ایک عجیب منظر سامنے آیا۔ دربار میں موجود تمام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، اور کچھ لوگ خوف کے مارے پیچھے ہٹ گئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور حیرانی سے اس تھیلے کے اندر دیکھنے لگے۔ تھیلے میں انسانی پیر موجود تھے، جو کسی کی لاش سے کٹے ہوئے تھے۔
—
### دربار میں خاموشی اور سوالات
دربار میں ایک لمحے کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی۔ سب حیرت اور خوف کے عالم میں تھے۔ سلطان نے گہری سانس لیتے ہوئے علم دین سے پوچھا:
“یہ کیا ہے؟ اور تمہارے پاس یہ کیوں ہیں؟”
علم دین نے لرزتی آواز میں کہا:
“یا سلطان! یہ پیر کسی معصوم انسان کے ہیں، جسے رات کے وقت میرے گھر کے باہر پھینک دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ اس معاملے کو آپ کے پاس لے آؤں تاکہ انصاف ہو سکے۔”
—
### سلطان کا انصاف طلب کرنا
سلطان صلاح الدین ایوبی، جو ہمیشہ عدل و انصاف کے لیے جانے جاتے تھے، فوراً معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے اپنے قریبی مشیر اور سپاہیوں کو بلایا اور کہا:
“یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ ہمیں فوراً پتہ لگانا ہوگا کہ یہ کس کا کام ہے اور کیوں کیا گیا۔”
—
### تحقیقات کا آغاز
تحقیقات شروع ہوئیں، اور شہر میں افواہوں کا طوفان مچ گیا۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ یہ کاروائی ایک ظالم جاگیردار کی تھی، جو علم دین کو سبق سکھانا چاہتا تھا کیونکہ علم دین نے اس کے بنائے ہوئے جوتوں کو خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ جاگیردار کو یقین تھا کہ اس خوفناک حرکت سے علم دین کی شہرت کو نقصان پہنچے گا۔
—
### جاگیردار کو سزا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جاگیردار کو فوراً دربار میں طلب کیا۔ انہوں نے تمام شواہد سننے کے بعد کہا:
“جو ظلم تم نے کیا ہے، وہ نہ صرف علم دین بلکہ انسانیت کے خلاف ہے۔ تمہیں اس ظلم کا حساب دینا ہوگا۔”
جاگیردار کو سخت سزا دی گئی، اور اس کی جائیداد کو ضبط کر کے غریبوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
—
### علم دین کی عزت افزائی
سلطان صلاح الدین ایوبی نے علم دین کی دیانتداری اور جرات کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا:
“تم نے جو ہمت دکھائی اور انصاف کے لیے میرے پاس آئے، وہ قابل ستائش ہے۔ ہم تمہیں ایک خصوصی اعزاز سے نوازتے ہیں۔”
—
### نتیجہ
یہ کہانی نہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے عدل و انصاف کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ سچائی اور جرات ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ علم دین کی دیانتداری نے اسے ایک مثال بنا دیا، اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے انصاف نے عوام کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔
**اختتامیہ:** یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، سچائی اور انصاف کے راستے پر چلنے سے ہمیشہ کامیابی ملتی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران ہمارے لیے مثال ہیں، جنہوں نے عدل کو ہمیشہ اولین ترجیح دی۔