شروع میں لوگوں نے کوئی پروا نہیں کی ،مگر کرونا وبا پر قابو پانے کے بعد اسکول دوبارہ کھولے گئے تو بندر اسکول کے اطراف منڈلاتے دیکھا گیا، جس کے باعث بچے خوف کا شکار ہوئے تو مقامی انتظامیہ نے محکمہ جنگلات کو آگاہ کیا۔بندر کو اس علاقے سے بھگانے میں محکمہ جنگلات ناکام رہا تو انہوں نے رکشہ ڈرائیوروں کی مدد سے انہیں قابو پانے کا منصوبہ بنایا تاکہ شرارتی بندر کو مخصوص سمت میں گھیر کر پکڑا جاسکے تاہم یہ منصوبہ اس وقت کھٹائی میں پڑگیا جب بندر نے رکشہ ڈرائیور پر حملہ کردیا اور اسے جان بچانے کے لئے وہاں ستے رفو چکر ہونا پڑا، مگر غصیلے بندر نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور رکشے میں جاکر اس کے سیٹ کوور تک پھاڑ ڈالے۔جگدیش نامی رکشے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ پاگل بندر نے مجھے اس بُری طریقے سے کاٹا ہے کہ میں اپنا آٹو رکشہ نہیں چلا سکتا، ڈاکٹرز کے مطابق میرے زخم ٹھیک ہونے میں ایک ماہ لگے گا،
میں بہت خوف زدہ ہو، خوف کے باعث گھر بھی نہیں گیا، اس لئے کہ بندر میرے پیچھے آکر بچوں کو نقصان نہ پہنچائے۔بعد ازاں تیس سے زائد افراد کے ایک گروپ نے تین گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد بندر کو پکڑلیا اور محکمہ جنگلات کے افسران اسے گاؤں سے بائیس کلو میٹر دو بلور جنگل میں چھوڑ آئے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق گاؤں والے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئے ٹھیک ایک ہفتے بعد بندر دوبارہ اسی گاؤں میں آن پہنچا، بندر گاؤں کیسے پہنچا؟ جس کا بھانڈا ایک ٹرک ڈرائیور نے پھوڑا کہ بندر نے جنگل کے قریب سے گزرنے والے ٹرک پر چھلانگ لگائی اور گاؤں پہنچنے میں کامیاب ہوا۔جب جگدیش کو پتہ چلا کہ بندر واپس آگیا ہے تو وہ بندر کے خوف سے روپوش ہوگیا، جگدیش کا کہنا تھا کہ بندر کے گاؤں میں آنے کی خبر نے میرے جسم میں لرزہ طاری کردیا ہے،
میں نے خود محکمہ جنگلات کو فون کرکے مدد طلب کی مگر اپنی پوشیدہ جگہ سے باہر نہیں نکلا۔مقامی فاریسٹ آفیسر نے بندر کے دوبارہ اس علاقے میں آنے کی خبر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم واقعتا نہیں جانتے کہ بندر نے ایک آدمی کو کیوں نشانہ بنایا؟، یہ کوئی ردعمل ہے ، اس سے قبل کبھی ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔بعد ازاں بندر کو دوبارہ پکڑ کے اسے اس بار جنگل کے اندر چھوڑا گیا ہے، جگدیش کا کہنا ہے کہ مجھے امید ہے کہ اب بندر نہیں آئے گا۔