یہاں تک کہ بغداد کے کوتوال تک رسائی بھی حاصل کر لی ۔ ایک دن کو توال کے گھر چوری ہو گئی ۔پولیس نے مجرم کا سراغ لگانے اور پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔ اس نے دیکھا ، کہ ایک شیخ کا کوتوال کے گھر آنا جانا ہے ، اور کوتوال ان کی بے حد تعظیم کر تا ہے ۔لیکن ایک بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی که شیخ آدھے پاؤں پر چلتے ہیں ، پورا پاؤں زمین پر کیوں نہیں رکھتے ۔ اس نے کسی سے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا :۔یہ پورا پاؤں زمین پر اس لیے نہیں رکھتے کہ کہیں کیڑے مکوڑے نہ کچلے جائیں ۔ وہ شخص فوراً کوتوال کے پاس گیا اور اسے کہا :۔ جان کی امان ہو تو عرض ہے ،آپ کیچوری اس شیخ نے کی ہے ۔
جب تحقیق کی گئی تو مال مسروقہ اسی شیخ سے بر آمد ہوا ۔ کوتوال نے حیرانی سے کہا : ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شیخ بھی ایسا کر سکتے ہیں ۔تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا :۔ میرے گھر میں ایک درخت تھا ، جس نے مجھے نصیحت کی تھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگ فیس بک کی حدود تک ہی با اخلاق رہتے ہیں حقیقی زندگی میں ان کی شر سے ان کے محلے دار ، رشتے دار حتی کہ گھر والے بھی پناہ مانگتے ہیں ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ظاہر ی اور باطنی طور پر اعمال صالحہ پر چلنے اور ہمارے معاملات و معاشرات پر با اخلاق رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ آمین