### **ایک کالج کا جذباتی واقعہ: فیس کے پیسے چوری ہو گئے**
خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ چل رہا تھا۔ کلاس کے سارے طلبہ کتابوں میں نظریں گاڑھے ہوئے تھے اور ٹیچر پوری محویت کے ساتھ لیکچر دے رہی تھیں۔ اچانک ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی، اور کلاس میں خاموشی چھا گئی۔
ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا، اپنی جگہ سے تیزی سے اٹھیں اور سیدھی اُس لڑکی کے پاس پہنچ گئیں۔
“کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟” ٹیچر نے نرم لہجے میں پوچھا۔
لڑکی نے سسکتے ہوئے جواب دیا، “میرے فیس کے پیسے چوری ہو گئے ہیں۔ بیگ میں رکھے تھے، کسی نے نکال لیے ہیں۔”
### **کلاس کا ماحول بدل گیا**
یہ سنتے ہی پوری کلاس میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ سب حیران اور کچھ پریشان ہو گئے۔ فیس کی چوری کا معاملہ کسی کے لیے معمولی بات نہیں تھا، خاص طور پر ایک سرکاری کالج میں، جہاں اکثر طالبات مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتیں۔
ٹیچر نے فوراً کلاس کو خاموش کرایا اور ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا،
“جاؤ، چپراسی کو بلاؤ، اور پرنسپل صاحبہ کو بھی اطلاع دو۔”
### **پیسے واپس لانے کا طریقہ**
پرنسپل صاحبہ کلاس میں آئیں تو لڑکی نے دوبارہ روتے ہوئے اپنی بات دہرائی۔
“میرے والدین نے بڑی مشکل سے یہ پیسے دیے تھے۔ اگر میں فیس جمع نہ کروا سکی تو میرا نام کاٹ دیا جائے گا۔”
یہ سن کر پرنسپل صاحبہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا، “ہم اس مسئلے کو ابھی حل کریں گے۔ سب طالبات اپنی جگہ بیٹھ جائیں اور اپنے بیگز میز پر رکھ دیں۔”
### **بیگز کی تلاشی**
کلاس کے دروازے بند کر دیے گئے تاکہ کوئی باہر نہ جا سکے۔ ایک ایک طالبہ کے بیگ کی تلاشی لی گئی، لیکن چوری شدہ پیسے نہیں ملے۔ کچھ طالبات نے اعتراض کیا، “ہم نے کچھ نہیں کیا، ہمیں کیوں شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے؟”
پرنسپل صاحبہ نے نرمی سے سمجھایا، “یہ صرف ایک رسمی کارروائی ہے تاکہ چوری کرنے والا پکڑا جائے۔”
### **ایک طالبہ کا مشکوک رویہ**
بیگز کی تلاشی کے دوران ایک طالبہ کا رویہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ بار بار اپنی جگہ سے ہل رہی تھی اور بہت گھبرا رہی تھی۔ ٹیچر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا،
“کیا تم کچھ کہنا چاہتی ہو؟”
لڑکی نے انکار میں سر ہلا دیا، لیکن اس کے چہرے پر پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
### **چوری کا انکشاف**
آخرکار، جب اُس لڑکی کا بیگ چیک کیا گیا تو اُس میں سے فیس کے پیسے برآمد ہو گئے۔ یہ دیکھ کر پوری کلاس حیرت زدہ رہ گئی۔ چوری کرنے والی لڑکی نے فوراً رو کر اعتراف کر لیا،
“مجھے بہت شرمندگی ہے۔ میں نے یہ پیسے صرف اس لیے چرائے تھے کیونکہ میرے پاس اپنی فیس کے پیسے نہیں تھے۔ میرے والدین کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔”
### **معاملے کا حل**
یہ سن کر ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ سب طالبات کی نظریں پرنسپل صاحبہ اور ٹیچر کی طرف تھیں۔ پرنسپل صاحبہ نے لڑکی کو نرمی سے سمجھایا،
“تمہیں چوری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اگر تمہیں مسئلہ تھا تو تم ہم سے بات کر سکتی تھیں۔ ہم تمہاری مدد کرتے۔”
پرنسپل صاحبہ نے فیصلہ کیا کہ چوری کرنے والی لڑکی کو سزا دینے کے بجائے اس کے حالات کو سمجھا جائے۔ انہوں نے فیس کا بندوبست کیا اور دیگر طالبات کو تاکید کی کہ آئندہ ایسی کسی بھی صورت حال میں انتظامیہ سے رابطہ کریں۔
### **احساس اور مدد کا سبق**
اس واقعے نے پوری کلاس کو ایک اہم سبق دیا۔ چوری کرنے والی لڑکی نے اپنی غلطی تسلیم کی، اور دوسرے طلبہ کو بھی یہ بات سمجھ آئی کہ ہر انسان کی اپنی مشکلات ہوتی ہیں، جنہیں سمجھنا اور اُن کا حل نکالنا ضروری ہے۔
### **نتیجہ**
کلاس کے تمام طالبات نے مل کر چوری کرنے والی لڑکی کو تسلی دی اور اسے اکیلا محسوس نہیں ہونے دیا۔ اس دن کا سبق یہ تھا کہ انسانیت اور ہمدردی کسی بھی مسئلے کا بہتر حل ہیں۔ ٹیچر نے آخر میں کہا،
“یاد رکھو، کبھی بھی اپنی مشکلات کے آگے ہار مت مانو۔ مدد مانگنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیے۔”
یہ واقعہ کالج کی تاریخ میں ایک مثال بن گیا کہ کیسے ایک جذباتی مسئلے کو سمجھداری اور ہمدردی سے حل کیا جا سکتا ہے۔